
اسلام آباد: ‘صدر ٹرمپ کے ڈیجیٹل اثاثہ جات کے مشیروں’ کے حالیہ دوروں کے بعد، وزارت خزانہ نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو مہینوں کی کوششوں کے باوجود ورچوئل اثاثوں اور کرپٹو کرنسی کے معاملات میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیر نگرانی، وزارت سائنس ایک ورکنگ گروپ کے ساتھ مل کر کام کر رہی تھی، جس میں تقریباً 16 اداروں کے دو درجن سینئر سول اور عسکری حکام شامل تھے، تاکہ پاکستان میں ورچوئل اثاثوں کے ضوابط تیار کیے جا سکیں۔ اس سلسلے میں کابینہ کے لیے ایک باضابطہ سمری بھی تیار کی جا چکی تھی۔
اس ورکنگ گروپ میں وزارت سائنس، وزارت آئی ٹی، وزارت خزانہ، وزارت خارجہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ، اینٹی منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنانسنگ اتھارٹی، انٹیلی جنس اور تحقیقاتی ادارے شامل تھے۔
دستاویزات کے مطابق، ورکنگ گروپ کا ماننا تھا کہ 1973 کے رولز آف بزنس کے نکات 4، 5، 9 اور 10 وزارت سائنس کو ورچوئل اثاثوں کے ضوابط بنانے کی ذمہ داری سونپتے ہیں، جس میں وزارت آئی ٹی کی معاونت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
یہ نکات سائنس و ٹیکنالوجی کی منصوبہ بندی، ترقی، تحقیق، اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے سے متعلق ہیں، جس میں سائنسی ترقی کے لیے وینچر کیپٹل کمپنیوں کا قیام بھی شامل ہے۔ ایس ای سی پی کے ذریعے نان بینکنگ فنانشل کمپنیز (این بی ایف سی) کا قیام بھی انہی قواعد میں شامل ہے، لیکن اس کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
تاہم، رولز آف بزنس 1973 میں ایک عمومی اصول یہ بھی ہے کہ کوئی بھی مالی معاملہ وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر کابینہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کے باعث وزارت خزانہ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے، ورچوئل اثاثوں کے حوالے سے قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی۔
یہی وجہ ہے کہ فروری کے آخری ہفتے میں، وزارت خزانہ نے پاکستان کرپٹو کونسل بنانے کی تجویز دی، جس کے اجلاس میں وزارت آئی ٹی کو مدعو کیا گیا، لیکن وزارت سائنس کو شامل نہیں کیا گیا۔
اسی دوران، حکومت نے برطانوی-پاکستانی کاروباری شخصیت بلال بن ثاقب کو وزیر خزانہ کے ڈیجیٹل اثاثہ جات کے مشیر کے طور پر تعینات کرنے کا اعلان کیا، جو کہ ایک اعزازی (بلامعاوضہ) عہدہ ہے۔
وزارت سائنس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا، کیونکہ وزیر خزانہ کے مشیر یہ طے کریں گے کہ کس وزارت کو کرپٹو کرنسی کے معاملات کی ذمہ داری دی جائے اور اس کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جائے۔
دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں کسی بھی کرپٹو ایکسچینج یا آپریٹر کے لیے، ایس ای سی پی کی منظوری کے ساتھ نان بینکنگ فنانشل کمپنی (این بی ایف سی) کے طور پر رجسٹریشن ضروری ہوگی۔
حکام کے مطابق، کسی بھی ای-والٹ کے آغاز سے قبل این بی ایف سی رجسٹریشن لازمی ہوگی تاکہ مالیاتی نظام اور صارفین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
اس اقدام سے اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور انسداد دہشت گردی فنانسنگ (CTF) قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے گا، صارفین کے ڈیٹا کی سیکیورٹی کو مضبوط کیا جا سکے گا، اور بینکوں کے ساتھ شراکت داری کو آسان بنایا جا سکے گا۔ بصورت دیگر، کرپٹو سے متعلقہ کسی بھی سرگرمی کو غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔